The moment when, 50 years ago, Neil Armstrong planted his foot on the surface of the Moon inspired awe, pride and wonder around the world. This newspaper argued that “man, from this day on, can go wheresoever in the universe his mind wills and his ingenuity contrives…to the planets, sooner rather than later, man is now certain to go.” But no. The Moon landing was an aberration, a goal achieved not as an end in itself but as a means of signalling America’s extraordinary capabilities. That point, once made, required no remaking. Only 571 people have been into orbit; and since 1972 no one has ventured much farther into space than Des Moines is from Chicago.
The next 50 years will look very different. Falling costs, new technologies, Chinese and Indian ambitions, and a new generation of entrepreneurs promise a bold era of space development. It will almost certainly involve tourism for the rich and better communications networks for all; in the long run it might involve mineral exploitation and even mass transportation. Space will become ever more like an extension of Earth—an arena for firms and private individuals, not just governments. But for this promise to be fulfilled the world needs to create a system of laws to govern the heavens—both in peacetime and, should it come to that, in war.
The development of space thus far has been focused on facilitating activity down below—mainly satellite communications for broadcasting and navigation. Now two things are changing. First, geopolitics is stoking a new push to send humans beyond the shallows of low-Earth orbit. China plans to land people on the Moon by 2035. President Donald Trump’s administration wants Americans to be back there by 2024. Falling costs make this showing off more affordable than before. Apollo cost hundreds of billions of dollars (in today’s money). Now tens of billions are the ticket price.
[ … ]
It is a mistake to promote space as a romanticised Wild West, an anarchic frontier where humanity can throw off its fetters and rediscover its destiny. For space to fulfil its promise governance is required. At a time when the world cannot agree on rules for the terrestrial trade of steel bars and soybeans that may seem like a big ask. But without it the potential of all that lies beyond Earth will at best wait another 50 years to be fulfilled. At worst space could add to Earth’s problems. | Winning entries could not be determined in this language pair.There was 1 entry submitted in this pair during the submission phase. Not enough entries were submitted for this pair to advance to the finals round, and it was therefore not possible to determine a winner.
Competition in this pair is now closed. |
50 برس قبل نیل آرمسٹرانگ نے جب چاند کی سطح پر قدم رکھا تو اس لمحہ نے دنیا بھر میں احترام، فخر اور حیرت کے تاثرات پیدا کر دیے۔ اس اخبار نے یہ دلیل دی کہ "اس دن کے بعد سے انسان اپنی مرضی سے اور تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر کائنات میں کہیں بھی جا سکتا ہے ۔۔۔ ان سیاروں کو جہاں جلد یا بدیر انسان یقینی طور پر جائے گا۔" لیکن نہیں۔ چاند پر اترنا ایک غیر معمولی واقعہ تھا، ایک ایسا ہدف جو بذات خود اختتام نہیں تھا بلکہ امریکہ کی غیر معمولی صلاحیتوں کی جانب اشارے کا ذریعہ تھا۔ ایک بار جب یہ مرحلہ طے پا گیا تو اسے دوبارہ کرنے کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔ صرف 571 لوگ مدار میں جا چکے ہیں، اور 1972 سے اب تک شکاگو کے ڈی موئن کے علاوہ کوئی بھی شخص خلاء میں اتنی گہرائی میں نہیں گیا۔ آئندہ 50 برس بہت مختلف دکھائی دیں گے۔ اخراجات میں کمی، نئی ٹیکنالوجیاں، چینی اور بھارتی عزائم اور کاروباری افراد کی ایک نئی نسل خلاء کی ترقی کے ایک پر اعتماد عہد کی ضمانت ہیں۔ اس میں یقیناً متمول افراد کے لئے سیاحت اور سب کے لئے بہتر مواصلاتی نیٹ ورکس بھی شامل ہوں گے، اور طویل مدت میں اس میں معدنیات کی تلاش اور حتٰی کہ بڑے پیمانے پر ذرائع آمد و رفت بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ خلاء وقت گزرنے کے ساتھ زمین کا ایک توسیعی حصہ بن جائے گی اور یہ نہ صرف حکومتوں بلکہ کاروباری اداروں اور نجی افراد کے لئے کھیل کا میدان ثابت ہو گی۔ لیکن اس امکان کو پورا کرنے کے لئے دنیا کو قوانین کا ایک نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے جو آسمانوں کو منظم کر سکے، زمانہ ء امن میں بھی اور ضرورت پڑنے پر جنگ میں بھی۔ خلاء میں ابھی تک ہونے والی ترقی نیچے زمین پر جاری سرگرمیوں کو سہولیات فراہم کرنے پر مرکوز ہے، جن میں زیادہ تر نشریاتی اور سمت شناسی کی سیٹلائٹوں کی مواصلات شامل ہے۔ اب دو چیزوں میں تبدیلی آ رہی ہے۔ پہلی تو یہ کہ جغرافیائی سیاست انسانوں کو زمین کے نچلے مدار کی کم گہرائیوں سے ماورا بھیجنے کی ایک نئی مہم کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔ چین 2035 تک چاند پر انسان اتارنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ 2024 تک وہاں امریکیوں کو دوبارہ بھیجنے کی خواہاں ہے۔ اخراجات میں کمی نے اس دکھاوے کو پہلے کی نسبت زیادہ قابل استطاعت بنا دیا ہے۔ آج کے دور کی رقم میں اپالو مشنوں پر کئی سو ارب ڈالر کی لاگت آتی۔ اب ٹکٹ کی قیمت محض چند ارب ڈالر ہے۔ [ … ] خلاء کو رومانی طرز کے لا قانونیت کے شکار امریکی سرحدی علاقوں کے طور پر مشتہر کرنا ایک غلطی ہے، ایک افراتفری کا شکار سرحدی علاقہ جہاں انسانیت اپنی بیڑیاں اتار پھینک کر اپنی تقدیر کو پھر سے دریافت کر سکتی ہے۔ خلاء کے امکانات کی تکمیل کے لئے نظم و نسق درکار ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب دنیا فولاد اور سویا بین کی زمینی تجارت کے قواعد پر اتفاق نہیں کر سکتی، یہ توقع عبث ہے۔ لیکن اس کے بغیر زمین سے ماورا چیزوں کے امکانی فوائد کے حصول کے لئے بہترین صورت میں مزید 50 برس انتظار کرنا ہو گا۔ بدترین صورت میں خلاء زمین کے مسائل میں اضافہ کر سکتی ہے۔ | Entry #27790 — Discuss 0 — Variant: Not specifiednone
|