We're accustomed to glamour in London SE26: Kelly Brook and Jason Statham used to live above the dentist. But when Anouska Hempel's heels hit the cracked cement of the parking space outside my flat, it's hard not to think of those Picture Post photographs of royalty visiting bombed-out families during the second world war. Her mission in my modest tract of suburbia is, however, about more than offering sympathy. Hempel—the woman who invented the boutique hotel before it bore any such proprietary name—has come to give me information for which, judging by the spreads in interiors magazines and anxious postings on online DIY forums, half the property-owners in the Western world seem desperate: how to give an ordinary home the look and the vibe of a five-star, £750-a-night hotel suite. To Hempelise, in this case, a modest conversion flat formed from the middle slice of a three-storey Victorian semi.
"You could do it," she says, casting an eye around my kitchen. "Anyone could do it. Absolutely no reason why not. But there has to be continuity between the rooms. A single idea must be followed through." She looks out wistfully over the fire escape. "And you'd have to buy the house next door, of course." That's a joke. I think.
...
It's worth pausing, though, to consider the oddness of this impulse. The hotel room is an amnesiac space. We would be troubled if it bore any sign of a previous occupant, particularly as many of us go to hotels in order to do things we would not do at home. We expect a hotel room to be cleaned as thoroughly as if a corpse had just been hauled from the bed. (In some cases, this will actually have happened.) The domestic interior embodies the opposite idea: it is a repository of memories. The story of its inhabitants ought to be there in the photos on the mantelpiece, the pictures on the wall, the books on the shelves. If hotel rooms were people, they would be smiling lobotomy patients or plausible psychopaths. | لند ن کی دلفریبی ہمارے لئے نئی نہیں کیلی بروک اور جیسن اسٹیتھم دانتوں کے کلینک کے اوپر منزل پر رہا کرتے تھے۔ مگر جب انوسکا ہیمپل کی ایڑیاں (قدم) میرے گھر کے باہر پارکنگ کے پرشگاف فرش سے ٹکراتی ہیں، اس لمحے پکچر پوسٹ میگزین کی وہ تصاویر ذہن میں آتی ہیں جن میں بادشاہ دوسری جنگ عظیم میں بمباری سے تباہ ہونے والے خاندانوں سے ملاقات کرتے نظر آتے ہیں۔ تاہم میرے شھر کے اس متوسط مضافاتی علاقے میں ان کا مقصد صرف ہمدردی ادا کرنے سے کچھ زیادہ ہی ہے۔ ہیمپل ــــــــــــــــبوتیک ہوٹل کی مؤجد خاتون، پہلی بار کسی ہوٹل پر اس طرح کا نام لگاـــــــــــــــــــــــ مجھے وہ معلومات دینے آئی ہیں جس کیلئے، انٹیرئیر میگزین کی تشہیروں اور آن لائن ڈی آئی وائی فورمز میں پوسٹنگز سے اندازہ لگاتے ہوئے، مغربی دنیا کے آدھے پراپرٹی مالکان مایوس دکھائی دیتے ہیں: کہ کیسے ایک عام گھر کو ایک مہنگے فائیو اسٹار ہوٹل کی (750 پاؤنڈ ایک رات) شکل اور تاثر دیا جائے۔ اس بار، وہ ایک تین منزلہ وکٹورین سیمی کے درمیانی حصے سے بنے ایک متوسط فلیٹ کو اپنے طرز سے تبدیل کرنے آئی ہیں۔ تم ایسا کر سکتے ہو۔" اس نے میرے کچن کے گرد نظر ڈالتے ہوئے کہا۔ "ہر کوئی ایسا کرسکتا ہے۔ نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ لیکن کمروں کے مابین تسلسل ہونا چاہئے۔ ایک خیال کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہئے۔" وہ اشتیاق سے فائر اسکیپ کے اوپر سے باہر دیکھتی ہے۔ "اور تمھیں ساتھ والا گھر یقینا خریدنا پڑے گا۔" میرے خیال میں یہ ایک لطیفہ ہے۔ اس ہیجان کا انوکھاپن، اگرچہ، غور کرنے کے قابل ہے۔ ہوٹل کا کمرہ ایک بھول جانے والی جگہ ہے۔ اگر اس میں آخری قابض/مکین کی کوئی علامت باقی رہتی تو ہمیں پریشانی ہوتی، خاص طور پر ہم میں سے بہت سارے ہوٹل وہ کام کرنے کے لئے جاتے ہیں جو ہم گھر پر نہیں کریں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہوٹل کا کمرہ پوری طرح ایسے صاف ہو جیسے کوئی لاش ابھی بستر سے اٹھائی گئی ہو۔ (بعض صورتوں میں حقیقتا ایسا ہوا ہوگا)۔ گھر کا اندرونی حصہ مخالف خیال کو شکل دیتا ہے: یہ یادوں کا ایک محفوظ مسکن ہوتا ہے۔ اس میں رہنے والوں کی کہانی وہاں کارنس پر رکھی تصویروں، دیوار پر لگے عکس، اور درازوں میں رکھی کتابوں کے اندر ہونی چاہئے۔ اگر ہوٹل کے کمرے انسان ہوتے، تو وہ مسکراتے ہوئے دماغی مریض ہوتے یا قابل تعریف پاگل ہوتے۔ |