ھم ایک کئ منزلہ عمارت کے احاطے میں ایک چھوٿے فلیٿ میں رہتے ہیں جو درمیانے طبقے کے کئ گھرانوں کو رہائش مہیا کرتی ھے. لیکن پالتو بلیوں کے خاندان کے افراد جنہیں کہ ہمارا احاطہ پسند آچکا ھے نے انسانوں کی تعداد پر لازماً سبقت حاصل کر لی ھے. کیونکہ یہ چوپائے جنکے پنجے واپس کھینچنے کے قابل ہوتے ہیں، جو کہ اپنے دیہی چچاذاد شیر، باگ، سیاہ گوش اور میدانی چیتوں پر فخر کر سکتے ھیں ہمارے ارد گرد کسی سے نہیں ڈرتے. بلیوں کی بڑھتی ہوئ آبادی جن کے پنجوں نے نو زندگیاں لیں سب کو پریشان کرتی ھیں جبکہ کئ کو مزاحیہ راحت مہیا کرتی ہیں.
ہماری شاہراہ پران بلیوں کے علاقے کی اپنی سخت حدبندیاں ہیں. زمینی منزل، پہلی منزل اور دوسری منزل کے چوہے مار اپنی منزلوں پر ہی رہتے ہیں ماسوائے بھوکوں کے جو باورچی خانوں میں چوری کرتے ہیں کنٹرول لائن کے آر پار. چھت صرف چھوٹوں کے لیئے مختص ہےاور کبھی کبہار پہلے سیام کے اشراف چاٹنے اور دھوپ سیکنے کیلیئے استعمال کرتے ہیں. کچھ بلیاں آرامدہ نکڑ تلاش کر کےنیند کا خاتمہ کرتی ہیں جہاں بالکل گنجائش ہی نہیں، جیسا کہ چوکیدار کی کوٹهری، جہاں کہ انہوں نے معصوم بلی کو آرام کرتے ہوئے پکڑا ہوگا. خدا نے ان بلیوں کو دو صوتی خانوں سے نوازا ہے ایک خر خر کرنے اور دوسرا میانو کرنے کیلیئے اور ہمارے علاقے کی کچھ گائک بلیاں تو کبھی کبہار خاص مواقع پر سب رہائشیوں کو جگائے رکھتی ہیں اپنے شب بیداروں والے آرکیسٹراؤں سے.
کچھ رہائشی جو صاف رہنا چاہتے ہیں جیسے کہ بلی کھڑاوّں میں تنگ ہوتی ہے جب یہ سرمئی بلیاں ان کی چیزیں خراب کرتی ہیں. رہائشیوں میں سے شکاری یہ سختی سے محسوس کرتے ہیں کہ ان بلیوں کو کسی گانٹھ کوڑے سے بھگایا جائے. لیکن کبوتر غیر یقینی منطضر ہیں یہ دیکھنے کیلیئے کہ بلی کس طرف چھلانگ لگاتی ہے. خیر، ہمیں علم نہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے کسے بلایا جائے گا.